اک ایما اک اشارہ مر رہا ہے
افق پر دل کے تارا مر رہا ہے
جو میرے بعد سب پیدا ہوا تھا
وہ مجھ سے پہلے سارا مر رہا ہے
جسے تھا پھول کر پھٹنا ہی لازم
سکڑ کر وہ غبارہ مر رہا ہے
کئی موجوں نے دم توڑا تھا جس پر
سنا ہے وہ کنارا مر رہا ہے
خرد تحلیل صحرا کر رہی ہے
جنوں کا استعارہ مر رہا ہے
نظر کی موت اک تازہ المیہ
اور اتنے میں نظارہ مر رہا ہے
زماں پیما یہی مقیاس دل تھا
مگر اب اس کا پارہ مر رہا ہے
مجھے زندہ تھی جس کی ناگواری
وہ اب مجھ کو گوارا مر رہا ہے
کہاں مانگی ہوئی سانسیں کہاں دل
جلایا تھا، دوبارہ مر رہا ہے
غزل
اک ایما اک اشارہ مر رہا ہے
عبد الاحد ساز