عبث ہے راز کو پانے کی جستجو کیا ہے
یہ چاک دل ہے اسے حاجت رفو کیا ہے
یہ آئنے ہیں کہ ہم چہرہ لشکروں کی صفیں
یہ عکس عکس کوئی صورت عدو کیا ہے
مشابہت کے یہ دھوکے مماثلت کے فریب
مرا تضاد لیے مجھ سا ہو بہ ہو کیا ہے
میں ایک حلقۂ بے سمت اپنے مرکز پر
یہ شش جہات ہیں کیسے یہ چار سو کیا ہے
یہ لحم و خوں کے کنائے یہ ذہن کے اسلوب
مرے وجود کا پیرایۂ نمو کیا ہے
یہ آسماں سے رگ جاں تک ایک سرگوشی
سکوت شب کا یہ انداز گفتگو کیا ہے
یہ رہ گزار نفس تنگنائے مایوسی
مگر یہ وسعت دامان آرزو کیا ہے
حصار جسم و طلسم قبا عزیز مگر
نکل بھی آؤ مری جاں کبھو کبھو کیا ہے
خیال کیا ہے جو الفاظ تک نہ پہنچے سازؔ
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
غزل
عبث ہے راز کو پانے کی جستجو کیا ہے (ردیف .. ')
عبد الاحد ساز