حصار دید میں جاگا طلسم بینائی
ذرا جو لو تری شمع بدن کی تھرائی
نہ جانے کس سے بچھڑنے کے راگ رنگ ہیں سب
یہ زندگی ہے کہ فرقت کی بزم آرائی
سکوت بحر میں کس غم کا راز پنہاں تھا
بس ایک موج اٹھی اور آنکھ بھر آئی
یہ سمت سمت تخاطب افق افق تقریر
ترا کلام ہے میرا رفیق تنہائی
خرد کی رہ جو چلا میں تو دل نے مجھ سے کہا
عزیز من ''بہ سلامت روی و باز آئی''
اٹھائے صور سرافیل دیکھتا ہی رہا
بشر کے ہاتھ نظام قیامت آرائی
کیا تھا جی کا زیاں ہم نے اک غزل بھر کو
ہزار شعر کہے ہو سکی نہ بھرپائی
غزل
حصار دید میں جاگا طلسم بینائی
عبد الاحد ساز