EN हिंदी
روکے سے کہیں حادثۂ وقت رکا ہے | شیح شیری
roke se kahin hadsa-e-waqt ruka hai

غزل

روکے سے کہیں حادثۂ وقت رکا ہے

علی احمد جلیلی

;

روکے سے کہیں حادثۂ وقت رکا ہے
شعلوں سے بچا شہر تو شبنم سے جلا ہے

کمرہ کسی مانوس سی خوشبو سے بسا ہے
جیسے کوئی اٹھ کر ابھی بستر سے گیا ہے

یہ بات الگ ہے کہ میں جیتا ہوں ابھی تک
ہونے کو تو سو بار مرا قتل ہوا ہے

پھولوں نے چرا لی ہیں مجھے دیکھ کے آنکھیں
کانٹوں نے بڑی دور سے پہچان لیا ہے

اس سمت ابھی خون کے پیاسے ہیں ہزاروں
اس سمت بس اک قطرۂ خوں اور بچا ہے

روداد چراغاں تو بہت خوب ہے لیکن
کیا جانیے کس کس کا لہو ان میں جلا ہے

اس رنگ تغزل پہ علیؔ چھاپ ہے میری
یہ ذوق سخن مجھ کو وراثت میں ملا ہے