مستحق وہ لذت غم کا نہیں
جس نے خود اپنا لہو چکھا نہیں
اس شجر کے سائے میں بیٹھا ہوں میں
جس کی شاخوں پر کوئی پتا نہیں
کون دیتا ہے در دل پر صدا
کہہ دو میں بھی اب یہاں رہتا نہیں
بن رہے ہیں سطح دل پر دائرے
تم نے تو پتھر کوئی پھینکا نہیں
انگلیاں کانٹوں سے زخمی ہو گئیں
ہاتھ پھولوں تک ابھی پہنچا نہیں
ایک خوشبو ساتھ جو پل بھر رہی
عمر بھر پیچھا مرا چھوڑا نہیں
وہ مقام فکر ہے مرا علیؔ
جس بلندی تک کوئی پہنچا نہیں
غزل
مستحق وہ لذت غم کا نہیں
علی احمد جلیلی