لائی ہے کس مقام پہ یہ زندگی مجھے
محسوس ہو رہی ہے خود اپنی کمی مجھے
دیکھو تم آج مجھ کو بجھاتے تو ہو مگر
کل ڈھونڈھتی پھرے گی بہت روشنی مجھے
طے کر رہا ہوں میں بھی یہ راہیں صلیب کی
آواز اے حیات نہ دینا ابھی مجھے
سوکھے شجر کو پھینک دوں کیسے نکال کر
دیتا رہا ہے سایہ شجر جو کبھی مجھے
کیوں کر رہی ہے مجھ سے سوالات زندگی
کہہ دو جواب کی نہیں فرصت ابھی مجھے
کیا چاہتا تھا وقت پہ لکھنا نہ پوچھیے
حرمت قلم کی اپنی بچانی پڑی مجھے
دل داریاں بھی رہ گئیں پردے میں اے علیؔ
لہجہ بدل بدل کے صدا دی گئی مجھے
غزل
لائی ہے کس مقام پہ یہ زندگی مجھے
علی احمد جلیلی