EN हिंदी
اسیر دشت بلا کا نہ ماجرا کہنا | شیح شیری
asir-e-dasht-e-bala ka na majra kahna

غزل

اسیر دشت بلا کا نہ ماجرا کہنا

عالم تاب تشنہ

;

اسیر دشت بلا کا نہ ماجرا کہنا
تمام پوچھنے والوں کو بس دعا کہنا

یہ کہنا رات گزرتی ہے اب بھی آنکھوں میں
تمہاری یاد کا قائم ہے سلسلہ کہنا

یہ کہنا اب بھی سلگتا ہے جسم کا چندن
تمہارا قرب تھا اک شعلۂ حنا کہنا

یہ کہنا چاند اترتا ہے بام پر اب بھی
مگر نہیں وہ شب ماہ کا مزا کہنا

یہ کہنا مسند شاخ نمو پہ تھا جو کبھی
وہ پھول صورت خوشبو بکھر گیا کہنا

یہ کہنا قریۂ جاں میں ہیں دم بخود سب لوگ
تمام شہر ہوا مقتل نوا کہنا

یہ کہنا حسرت تعمیر اب بھی ہے دل میں
بنا لیا ہے مکاں تو مکاں نما کہنا

یہ کہنا ہم نے ہی طوفاں میں ڈال دی کشتی
قصور اپنا ہے دریا کو کیا برا کہنا

یہ کہنا ہو گئے ہم اتنے مصلحت اندیش
چلے جو لو تو اسے ابھی خنک ہوا کہنا

یہ کہنا ہار نہ مانی کبھی اندھیروں سے
بجھے چراغ تو دل کو جلا لیا کہنا

یہ کہنا تم سے بچھڑ کر بکھر گیا تشنہؔ
کہ جیسے ہاتھ سے گر جائے آئینہ کہنا