چلے تھے بھر کے ریت جب سفر کی جسم و جاں میں ہم
تو ساحلوں کا عکس دیکھتے تھے بادباں میں ہم
طیور تھے جو گھونسلوں میں پیکروں کے اڑ گئے
اکیلے رہ گئے ہیں اپنے خواب کے مکاں میں ہم
ہماری جستجو بھی اب تو ہو گئی ہے گرد گرد
کہ نقش پا کو ڈھونڈتے ہیں رہ کے ہر نشاں میں ہم
اشاریت تھی بے زباں تھا لفظ لفظ داستاں
سناتے کس طرح کہ گم تھے خود ہی داستاں میں ہم
برس رہی ہے آسماں سے مثل سنگ تیرگی
کھڑے ہیں کب سے تیری آرزو کے سائباں میں ہم
زمیں کا درد بے بدن بھی ہو کے اپنے دل میں تھا
تبھی تو کھنچ کے آ گئے تھے ورنہ آسماں میں ہم
نفس نفس ہے زندگی کا کاروبار منتشر
دیوالیہ ہوئے کہ جب سے آئے اس جہاں میں ہم
غزل
چلے تھے بھر کے ریت جب سفر کی جسم و جاں میں ہم
علیم افسر