EN हिंदी
تو اگر دل نواز ہو جائے | شیح شیری
tu agar dil-nawaz ho jae

غزل

تو اگر دل نواز ہو جائے

علیم اختر

;

تو اگر دل نواز ہو جائے
سوز ہم رنگ ساز ہو جائے

دل جو آگاہ راز ہو جائے
ہر حقیقت مجاز ہو جائے

لذت غم کا یہ تقاضا ہے
مدت غم دراز ہو جائے

نغمۂ عشق چھیڑتا ہوں میں
زندگی نے نواز ہو جائے

اس کی بگڑی بنے نہ کیوں اے عشق
جس کا تو کارساز ہو جائے

حسن مغرور ہے مگر توبہ
عشق اگر بے نیاز ہو جائے

درد کا پھر مزہ ہے جب اخترؔ
درد خود چارہ ساز ہو جائے