تلاطم آرزو میں ہے نہ طوفاں جستجو میں ہے
جوانی کا گزر جانا ہے دریا کا اتر جانا
تلوک چند محروم
اٹھانے کے قابل ہیں سب ناز تیرے
مگر ہم کہاں ناز اٹھانے کے قابل
تلوک چند محروم
یہ فطرت کا تقاضا تھا کہ چاہا خوب روؤں کو
جو کرتے آئے ہیں انساں نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
تلوک چند محروم
یوں تو برسوں نہ پلاؤں نہ پیوں اے زاہد
توبہ کرتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری
تلوک چند محروم
یوں تو برسوں نہ پلاؤں نہ پیوں اے زاہد
توبہ کرتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری
تلوک چند محروم
بس یہی اک کام باقی تھا جو کرنا ہے مجھے
میں محبت بو رہا ہوں نفرتوں کے درمیاں
تشنہ بریلوی
قریب آ نہ سکا میں ترے مگر خوش ہوں
کہ میرا ذکر تری داستاں سے دور نہیں
تشنہ بریلوی