EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تلاطم آرزو میں ہے نہ طوفاں جستجو میں ہے
جوانی کا گزر جانا ہے دریا کا اتر جانا

تلوک چند محروم




اٹھانے کے قابل ہیں سب ناز تیرے
مگر ہم کہاں ناز اٹھانے کے قابل

تلوک چند محروم




یہ فطرت کا تقاضا تھا کہ چاہا خوب روؤں کو
جو کرتے آئے ہیں انساں نہ کرتے ہم تو کیا کرتے

تلوک چند محروم




یوں تو برسوں نہ پلاؤں نہ پیوں اے زاہد
توبہ کرتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری

تلوک چند محروم




یوں تو برسوں نہ پلاؤں نہ پیوں اے زاہد
توبہ کرتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری

تلوک چند محروم




بس یہی اک کام باقی تھا جو کرنا ہے مجھے
میں محبت بو رہا ہوں نفرتوں کے درمیاں

تشنہ بریلوی




قریب آ نہ سکا میں ترے مگر خوش ہوں
کہ میرا ذکر تری داستاں سے دور نہیں

تشنہ بریلوی