دن میں سورج ہے مری محرومیوں کا ترجماں
ظلمت شب میں ستارے ہجر و غم کے راز داں
چاند سورج ہیں پرائے اجنبی ہے کہکشاں
ہم فقیروں کے لیے فرش زمیں ہے آسماں
جلوۂ معشوق بھی ہے اک کرشمہ الاماں
سات پردوں میں نہاں ہو کر بھی ہر جانب عیاں
منزل گریہ کہاں ہے چشم تر کو کیا خبر
تا ابد بھٹکے گا میرے آنسوؤں کا کارواں
دل کو جانا تھا گیا اک فالتو سی چیز تھا
سینۂ عاشق میں یارو دل کی گنجائش کہاں
بس یہی اک کام باقی تھا جو کرنا ہے مجھے
میں محبت بو رہا ہوں نفرتوں کے درمیاں
یہ فسانہ عشق کا یعنی خزانہ پیار کا
ساتھ ہے تشنہ ازل سے داستاں در داستاں
غزل
دن میں سورج ہے مری محرومیوں کا ترجماں
تشنہ بریلوی