EN हिंदी
چمن میں برق کبھی آشیاں سے دور نہیں | شیح شیری
chaman mein barq kabhi aashiyan se dur nahin

غزل

چمن میں برق کبھی آشیاں سے دور نہیں

تشنہ بریلوی

;

چمن میں برق کبھی آشیاں سے دور نہیں
زمیں پہ ہم ہیں مگر آسماں سے دور نہیں

جگا سکو تو جگاؤ کہ ناخدا دیکھے
طواف موج بلا بادباں سے دور نہیں

یہ عالم بشریت بکھرنے والا ہے
کوئی مکان بھی اب لا مکاں سے دور نہیں

قریب آ نہ سکا میں ترے مگر خوش ہوں
کہ میرا ذکر تری داستاں سے دور نہیں

ذرا سی اور مہارت ہو تیر زن کو عطا
نشانہ اب مرے دل کے نشاں سے دور نہیں

یہ ہے دوام کی منزل کہ ہے فنا کا کھنڈر
یہ راز آج مرے رخش جاں سے دور نہیں

میں اپنے دل کا فسانہ لکھوں تو کیوں نہ لکھوں
کہ قصہ گوئی میں میں موپساںؔ سے دور نہیں

نہ کر اے تشنہ مدارات میں تکلف کچھ
کہ گھر کا حال ترے میہماں سے دور نہیں