EN हिंदी
قریۂ جاں سے گزر کر ہم نے یہ دیکھا بھی ہے | شیح شیری
qarya-e-jaan se guzar kar humne ye dekha bhi hai

غزل

قریۂ جاں سے گزر کر ہم نے یہ دیکھا بھی ہے

اختر ہوشیارپوری

;

قریۂ جاں سے گزر کر ہم نے یہ دیکھا بھی ہے
جس جگہ اونچی چٹانیں ہیں وہاں دریا بھی ہے

درد کا چڑھتا سمندر جسم کا کچا مکاں
اور ان کے درمیاں آواز کا صحرا بھی ہے

روح کی گہرائی میں پاتا ہوں پیشانی کے زخم
صرف چاہا ہی نہیں میں نے اسے پوجا بھی ہے

رات کی پرچھائیاں بھی گھر کے اندر بند ہیں
شام کی دہلیز پر سورج کا نقش پا بھی ہے

چاند کی کرنیں خراشیں ہیں در و دیوار پر
اور در و دیوار کے پہلو میں اک سایا بھی ہے

گھر کا دروازہ مقفل ہے اگر دیکھے کوئی
اندر اک کہرام ہے جیسے کوئی رہتا بھی ہے

جب میں اخترؔ پتھروں کو آئنہ دکھلا چکا
میں نے دیکھا آئنوں کے ہاتھ میں تیشہ بھی ہے