میں حرف دیکھوں کہ روشنی کا نصاب دیکھوں
مگر یہ عالم کہ ٹہنیوں پر گلاب دیکھوں
پرانے خوابوں سے ریزہ ریزہ بدن ہوا ہے
یہ چاہتا ہوں کہ اب نیا کوئی خواب دیکھوں
یہ راستے تو مری ہتھیلی کے ترجماں ہیں
میں ان لکیروں میں زندگی کی کتاب دیکھوں
مراجعت کا سفر تو ممکن نہیں رہا ہے
میں چلتا جاؤں کہ موسموں کا عذاب دیکھوں
میں اپنی تصویر دیکھ کر مطمئن کہاں ہوں
وہ دن بھی آئے لہو کو جب کامیاب دیکھوں
غزل
میں حرف دیکھوں کہ روشنی کا نصاب دیکھوں
اختر ہوشیارپوری