EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کھلا نہ اس پہ کبھی میری آنکھ کا منظر
جمی ہے آنکھ میں کائی کوئی دکھائے اسے

صدیق شاہد




خواب ٹوٹے پڑے ہیں سب میرے
میں ہوں اور حیرتوں کا ساماں ہے

صدیق شاہد




خواب ٹوٹے پڑے ہیں سب میرے
میں ہوں اور حیرتوں کا ساماں ہے

صدیق شاہد




کچھ ایسے دور بھی تاہم گرفت میں آئے
کہ یہ زمیں رہی باقی نہ آسماں ہی رہا

صدیق شاہد




مجھ سے کہتی ہیں وہ اداس آنکھیں
زندگی بھر کی سب تھکن یاں ہے

صدیق شاہد




مجھ سے کہتی ہیں وہ اداس آنکھیں
زندگی بھر کی سب تھکن یاں ہے

صدیق شاہد




نکل آئے جو ہم گھر سے تو سو رستے نکل آئے
عبث تھا سوچنا گھر میں کوئی غیبی اشارہ ہو

صدیق شاہد