بعد رنجش کے گلے ملتے ہوئے رکتا ہے دل
اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
باقی ہے دل میں شیخ کے حسرت گناہ کی
کالا کرے گا منہ بھی جو داڑھی سیاہ کی
شیخ ابراہیم ذوقؔ
بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خم مے کی طرح ہم
پر کیا کریں کہ مہر ہے منہ پر لگی ہوئی
شیخ ابراہیم ذوقؔ
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
شیخ ابراہیم ذوقؔ
بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
بے قراری کا سبب ہر کام کی امید ہے
ناامیدی ہو تو پھر آرام کی امید ہے
شیخ ابراہیم ذوقؔ