EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

صدا اپنی روش اہل زمانہ یاد رکھتے ہیں
حقیقت بھول جاتے ہیں فسانہ یاد رکھتے ہیں

سحر انصاری




شاید کہ وہ واقف نہیں آداب سفر سے
پانی میں جو قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہا تھا

سحر انصاری




شاید کہ وہ واقف نہیں آداب سفر سے
پانی میں جو قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہا تھا

سحر انصاری




شکوۂ تلخئ حالات بجا ہے لیکن
اس پہ روتا ہوں کہ میں نے بھی رلایا ہے تجھے

سحر انصاری




تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ
کیا تماشا ہے کہ مرتے بھی نہیں زہر سے لوگ

سحر انصاری




تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ
کیا تماشا ہے کہ مرتے بھی نہیں زہر سے لوگ

سحر انصاری




تری آرزو سے بھی کیوں نہیں غم زندگی میں کوئی کمی
یہ سوال وہ ہے کہ جس کا اب کوئی اک جواب نہیں رہا

سحر انصاری