EN हिंदी
تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ | شیح شیری
tang aate bhi nahin kashmakash-e-dahr se log

غزل

تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ

سحر انصاری

;

تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ
کیا تماشا ہے کہ مرتے بھی نہیں زہر سے لوگ

شہر میں آئے تھے صحرا کی فضا سے تھک کر
اب کہاں جائیں گے آسیب زدہ شہر سے لوگ

نخل ہستی نظر آئے گا کبھی نخل صلیب
زیست کی فال نکالیں گے کبھی زہر سے لوگ

ہم کو جنت کی فضا سے بھی زیادہ ہے عزیز
یہی بے رنگ سی دنیا یہی بے مہر سے لوگ

مطمئن رہتے ہیں طوفان مصائب میں کبھی
ڈوب جاتے ہیں کبھی درد کی اک لہر سے لوگ

اے زمیں آج بھی ذرے ہیں ترے مہر تراش
اے فلک آج بھی لڑتے ہیں ترے قہر سے لوگ

صرف محرومیٔ فرہاد کا کیا ذکر سحرؔ
بے ستوں کاٹ کے محروم رہے نہر سے لوگ