اک خواب کے موہوم نشاں ڈھونڈ رہا تھا
میں حد یقیں پر بھی گماں ڈھونڈ رہا تھا
سائے کی طرح بھاگتے ماحول کے اندر
میں اپنے خیالوں کا جہاں ڈھونڈ رہا تھا
جو راز ہے وہ کھل کے بھی اک راز ہی رہ جائے
اظہار کو میں ایسی زباں ڈھونڈ رہا تھا
مرہم کی تمنا تھی مجھے زخم سے باہر
درماں تھا کہاں اور کہاں ڈھونڈ رہا تھا
شاید کہ وہ واقف نہیں آداب سفر سے
پانی میں جو قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہا تھا
کب تھا اسے اندازہ سحرؔ سنگ فلک کا
شیشے کے مکاں میں جو اماں ڈھونڈ رہا تھا
غزل
اک خواب کے موہوم نشاں ڈھونڈ رہا تھا
سحر انصاری