ہوس و وفا کی سیاستوں میں بھی کامیاب نہیں رہا
کوئی چہرہ ایسا بھی چاہیئے جو پس نقاب نہیں رہا
تری آرزو سے بھی کیوں نہیں غم زندگی میں کوئی کمی
یہ سوال وہ ہے کہ جس کا اب کوئی اک جواب نہیں رہا
تھیں سماعتیں سر ہاؤ ہو چھڑی قصہ خانوں کی گفتگو
وہی جس نے بزم سجائی تھی وہی باریاب نہیں رہا
کم و بیش ایک سے پیرہن کم و بیش ایک سا ہے چلن
سر رہ گزر کسی وصف کا کوئی انتخاب نہیں رہا
وہ کتاب دل جسے ربط تھا ترے کیف ہجر و وصال سے
وہ کتاب دل تو لکھی گئی مگر انتساب نہیں رہا
میں ہر ایک شب یہی بند آنکھوں سے پوچھتا ہوں سحر تلک
کہ یہ نیند کس لیے اڑ گئی اگر ایک خواب نہیں رہا
یہاں راستے بھی ہیں بے شجر ہے منافقت بھی یہاں ہنر
مجھے اپنے آپ پہ فخر ہے کہ میں کامیاب نہیں رہا
فقط ایک لمحے میں منکشف ہوئی شمع موسم آرزو
سحرؔ اس کے چہرے کی سمت جب گل آفتاب نہیں رہا
غزل
ہوس و وفا کی سیاستوں میں بھی کامیاب نہیں رہا
سحر انصاری