صدا اپنی روش اہل زمانہ یاد رکھتے ہیں
حقیقت بھول جاتے ہیں فسانہ یاد رکھتے ہیں
ہجوم اپنی جگہ تاریک جنگل کے درختوں کا
پرندے پھر بھی شاخ آشیانہ یاد رکھتے ہیں
ہمیں اندازہ رہتا ہے ہمیشہ دوست دشمن کا
نشانی یاد رکھتے ہیں نشانہ یاد رکھتے ہیں
ہم انسانوں سے تو یہ سنگ و خشت بام و در اچھے
مسافر کب ہوا گھر سے روانہ یاد رکھتے ہیں
دعائے موسم گل ان کو راس آ ہی نہیں سکتی
جو شاخ گل کے بدلے تازیانہ یاد رکھتے ہیں
ہماری سمت اک موج طرب آئی تو یاد آیا
کہ کچھ موسم ہمیں بھی غائبانہ یاد رکھتے ہیں
غرور ان کو اگر رہتا ہے اپنی کامیابی کا
سحرؔ ہم بھی شکست فاتحانہ یاد رکھتے ہیں
غزل
صدا اپنی روش اہل زمانہ یاد رکھتے ہیں
سحر انصاری