رسم دنیا تو کسی طور نبھاتے جاؤ
دل نہیں ملتے بھی تو ہاتھ ملاتے جاؤ
کبھی چٹان کے سینے سے کبھی بازو سے
بہتے پانی کی طرح راہ بناتے جاؤ
تیغ اٹھتی نہیں ہے تم سے جو ظالم کے خلاف
حق میں مظلوم کے آواز اٹھاتے جاؤ
لوگ سمجھیں گے کہ ہے شخص بڑا شائستہ
تم ہر اک بات پہ بس ناک چڑھاتے جاؤ
تم ستاروں کے بھروسے پہ نہ بیٹھے رہنا
اپنی تدبیر سے تقدیر بناتے جاؤ
اک نہ اک روز رفاقت میں بدل جائے گی
دشمنی کو بھی سلیقے سے نبھاتے جاؤ
اور کچھ بھی نہیں جب اے صداؔ تم سے ہوتا
شعر لکھ لکھ کے زمانے کو سناتے جاؤ

غزل
رسم دنیا تو کسی طور نبھاتے جاؤ
صدا انبالوی