زلف لہرا کے فضا پہلے معطر کر دے
جام پھر آنکھوں کے مے خانے سے بھر بھر کر دے
بجھ گئی شمع کی لو تیرے دوپٹے سے تو کیا
اپنی مسکان سے محفل کو منور کر دے
ہوش تو اڑ گئے آنکھوں سے ہی پی کر ساقی
اب ذرا وہ بھی پلا دے جو گلا تر کر دے
غیر کو منہ نہ لگا ہوش میں ہوں جب تک میں
اتنا احسان مرے ساقیا مجھ پر کر دے
بے مروت ہیں بڑے پی کے بھی ہیں ہوش میں جو
ایسے مے خواروں کو مے خانے سے باہر کر دے
شعر میں ساتھ روانی کے معانی بھی تو بھر
اے صداؔ قید تو کوزے میں سمندر کر دے
غزل
زلف لہرا کے فضا پہلے معطر کر دے
صدا انبالوی