اب کہاں دوست ملیں ساتھ نبھانے والے
سب نے سیکھے ہیں اب آداب زمانے والے
دل جلاؤ یا دیئے آنکھوں کے دروازے پر
وقت سے پہلے تو آتے نہیں آنے والے
اشک بن کے میں نگاہوں میں تری آؤں گا
اے مجھے اپنی نگاہوں سے گرانے والے
وقت بدلا تو اٹھاتے ہیں اب انگلی مجھ پر
کل تلک حق میں مرے ہاتھ اٹھانے والے
وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں بن سکتا
درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رلانے والے
اک نظر دیکھ تو مجبوریاں بھی تو میری
اے مری لغزشوں پر آنکھ ٹکانے والے
کون کہتا ہے برے کام کا پھل بھی ہے برا
دیکھ مسند پہ ہیں مسجد کو گرانے والے
یہ سیاست ہے کہ لعنت ہے سیاست پہ صداؔ
خود ہیں مجرم بنے قانون بنانے والے
غزل
اب کہاں دوست ملیں ساتھ نبھانے والے
صدا انبالوی