منظر رخصت دل دار بھلایا نہ گیا
دل کئی روز تلک راہ پہ لایا نہ گیا
خانۂ دل کی تباہی کا دیں الزام کسے
آپ کے بعد یہاں کوئی بھی آیا نہ گیا
خاک تصویر مصور سے بنے گی تیری
دوسرا تجھ سا خدا سے بھی بنایا نہ گیا
دے گیا خوب سزا مجھ کو کوئی کر کے معاف
سر جھکا ایسے کہ تا عمر اٹھایا نہ گیا
لاکھ دنیا نے مرے شعر پہ دی داد تو کیا
جس کی خاطر تھا لکھا اس کو سنایا نہ گیا
وقت کے ساتھ صداؔ بدلے تعلق کتنے
تب گلے ملتے تھے اب ہاتھ ملایا نہ گیا
غزل
منظر رخصت دل دار بھلایا نہ گیا
صدا انبالوی