EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ سن کے آج حشر میں وہ بات بھی تو ہو
ہنس کر کہا کہ دن ہے کہیں رات بھی تو ہو

ریاضؔ خیرآبادی




ذرا جو ہم نے انہیں آج مہرباں دیکھا
نہ ہم سے پوچھیے کیا رنگ آسماں دیکھا

ریاضؔ خیرآبادی




ظرف وضو ہے جام ہے اک خم ہے اک سبو
اک بوریا ہے میں ہوں مری خانقاہ ہے

ریاضؔ خیرآبادی




ظرف وضو ہے جام ہے اک خم ہے اک سبو
اک بوریا ہے میں ہوں مری خانقاہ ہے

ریاضؔ خیرآبادی




زیر مسجد مے کدہ میں میکدے میں مست خواب
چونک اٹھا جب دی موذن نے اذاں بالائے سر

ریاضؔ خیرآبادی




بعد میں رکھے سرابوں کے دیاروں میں قدم
پہلے وہ سانس کی سرحد پہ تو آ کر دیکھے

ریاض لطیف




بس لہو کی بوند تھی احساس میں
پھر اگایا دشت نے اک سر نیا

ریاض لطیف