EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بس لہو کی بوند تھی احساس میں
پھر اگایا دشت نے اک سر نیا

ریاض لطیف




کبھی تو منظروں کے اس طلسم سے ابھر سکوں
کھڑا ہوں دل کی سطح پر خود اپنے انتظار میں

ریاض لطیف




خدا کی خموشی میں شاید ہو اس کا وجود
زمانہ ہوا نام اپنا پکارے ہوئے

ریاض لطیف




خدا کی خموشی میں شاید ہو اس کا وجود
زمانہ ہوا نام اپنا پکارے ہوئے

ریاض لطیف




کسی نے ہم کو عطا نہیں کی ہماری گردش ہے اپنی گردش
خود اپنی مرضی سے اس جہاں کی رگوں میں گرداب ہم ہوئے ہیں

ریاض لطیف




یہیں پر ختم ہونی چاہیئے تھی ایک دنیا
یہیں سے بات کا آغاز ہونا چاہیئے تھا

ریاض لطیف




زمین پھیل گئی ہے ہماری روح تلک
جہاں کا شور اب اندر سنائی دیتا ہے

ریاض لطیف