دل ہے شوق وصل میں مضطر نظر مشتاق دید
جو ہے مشغول اپنی اپنی سعئ لا حاصل میں ہے
رشید لکھنوی
دل ہے شوق وصل میں مضطر نظر مشتاق دید
جو ہے مشغول اپنی اپنی سعئ لا حاصل میں ہے
رشید لکھنوی
دونوں آنکھیں دل جگر ہیں عشق ہونے میں شریک
یہ تو سب اچھے رہیں گے مجھ پر الزام آئے گا
رشید لکھنوی
گئے تھے حضرت زاہد تو زرد تھا چہرہ
شراب خانے سے نکلے تو سرخ رو نکلے
رشید لکھنوی
گئے تھے حضرت زاہد تو زرد تھا چہرہ
شراب خانے سے نکلے تو سرخ رو نکلے
رشید لکھنوی
ہنس ہنس کے کہہ رہا ہے جلانا ثواب ہے
ظالم یہ میرا دل ہے چراغ حرم نہیں
رشید لکھنوی
ہماری زندگی و موت کی ہو تم رونق
چراغ بزم بھی ہو اور چراغ فن بھی ہو
رشید لکھنوی