EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

خدا جانے یہ گردش کا طریقہ کب نکالا ہے
جسے کہتے ہیں گردوں اک مرے پاؤں کا چھالا ہے

رشید لکھنوی




معشوق کون سا ہے نہ ہو دل میں جس کی یاد
اس مختصر سے باغ میں کس گل کی بو نہیں

رشید لکھنوی




معشوق کون سا ہے نہ ہو دل میں جس کی یاد
اس مختصر سے باغ میں کس گل کی بو نہیں

رشید لکھنوی




نہیں ہے جس میں تیرا عشق وہ دل ہے تباہی میں
وہ کشتی ڈوب جائے گی نہ جس میں نا خدا ہوگا

رشید لکھنوی




قید کی مدت بڑھی چھٹنے کی جب تدبیر کی
روز بدلی جاتی ہیں کڑیاں مری زنجیر کی

رشید لکھنوی




قید کی مدت بڑھی چھٹنے کی جب تدبیر کی
روز بدلی جاتی ہیں کڑیاں مری زنجیر کی

رشید لکھنوی




راس آئے تم کو ملک عشق کی آب و ہوا
عاشقو ہر وقت شغل آہ و زاری چاہیے

رشید لکھنوی