خدا جانے یہ گردش کا طریقہ کب نکالا ہے
جسے کہتے ہیں گردوں اک مرے پاؤں کا چھالا ہے
رشید لکھنوی
معشوق کون سا ہے نہ ہو دل میں جس کی یاد
اس مختصر سے باغ میں کس گل کی بو نہیں
رشید لکھنوی
معشوق کون سا ہے نہ ہو دل میں جس کی یاد
اس مختصر سے باغ میں کس گل کی بو نہیں
رشید لکھنوی
نہیں ہے جس میں تیرا عشق وہ دل ہے تباہی میں
وہ کشتی ڈوب جائے گی نہ جس میں نا خدا ہوگا
رشید لکھنوی
قید کی مدت بڑھی چھٹنے کی جب تدبیر کی
روز بدلی جاتی ہیں کڑیاں مری زنجیر کی
رشید لکھنوی
قید کی مدت بڑھی چھٹنے کی جب تدبیر کی
روز بدلی جاتی ہیں کڑیاں مری زنجیر کی
رشید لکھنوی
راس آئے تم کو ملک عشق کی آب و ہوا
عاشقو ہر وقت شغل آہ و زاری چاہیے
رشید لکھنوی