وہی اک موسم سفاک تھا اندر بھی باہر بھی
عجب سازش لہو کی تھی عجب فتنہ ہوا کا تھا
راجیندر منچندا بانی
وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا
تمام عمر کا اب سلسلہ ہے میرے لیے
راجیندر منچندا بانی
وہ ہنستے کھیلتے اک لفظ کہہ گیا بانیؔ
مگر مرے لیے دفتر کھلا معانی کا
راجیندر منچندا بانی
وہ لوگ جو کبھی باہر نہ گھر سے جھانکتے تھے
یہ شب انہیں بھی سر رہ گزار لے آئی
راجیندر منچندا بانی
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے
راجیندر منچندا بانی
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے
راجیندر منچندا بانی
ذرا چھوا تھا کہ بس پیڑ آ گرا مجھ پر
کہاں خبر تھی کہ اندر سے کھوکھلا ہے بہت
راجیندر منچندا بانی