EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہی اک موسم سفاک تھا اندر بھی باہر بھی
عجب سازش لہو کی تھی عجب فتنہ ہوا کا تھا

راجیندر منچندا بانی




وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا
تمام عمر کا اب سلسلہ ہے میرے لیے

راجیندر منچندا بانی




وہ ہنستے کھیلتے اک لفظ کہہ گیا بانیؔ
مگر مرے لیے دفتر کھلا معانی کا

راجیندر منچندا بانی




وہ لوگ جو کبھی باہر نہ گھر سے جھانکتے تھے
یہ شب انہیں بھی سر رہ گزار لے آئی

راجیندر منچندا بانی




وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے

راجیندر منچندا بانی




وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے

راجیندر منچندا بانی




ذرا چھوا تھا کہ بس پیڑ آ گرا مجھ پر
کہاں خبر تھی کہ اندر سے کھوکھلا ہے بہت

راجیندر منچندا بانی