بجائے ہم سفری اتنا رابطہ ہے بہت
کہ میرے حق میں تری بے ضرر دعا ہے بہت
تھی پاؤں میں کوئی زنجیر بچ گئے ورنہ
رم ہوا کا تماشا یہاں رہا ہے بہت
یہ موڑ کاٹ کے منزل کا عکس دیکھو گے
اسی جگہ مگر امکان حادثہ ہے بہت
بس ایک چیخ ہی یوں تو ہمیں ادا کر دے
معاملہ ہنر حرف کا جدا ہے بہت
مری خوشی کا وہ کیا کیا خیال رکھتا ہے
کہ جیسے میری طبیعت سے آشنا ہے بہت
تمام عمر جنہیں ہم نے ٹوٹ کر چاہا
ہمارے ہاتھوں انہیں پر ستم ہوا ہے بہت
ذرا چھوا تھا کہ بس پیڑ آ گرا مجھ پر
کہاں خبر تھی کہ اندر سے کھوکھلا ہے بہت
کوئی کھڑا ہے مری طرح بھیڑ میں تنہا
نظر بچا کے مری سمت دیکھتا ہے بہت
یہ احتیاط کدہ ہے کڑے اصولوں کا
ذرا سے نقص پہ بانیؔ یہاں سزا ہے بہت
غزل
بجائے ہم سفری اتنا رابطہ ہے بہت
راجیندر منچندا بانی