EN हिंदी
کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا | شیح شیری
kahan talash karun ab ufuq kahani ka

غزل

کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا

راجیندر منچندا بانی

;

کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا
نظر کے سامنے منظر ہے بے کرانی کا

ندی کے دونوں طرف ساری کشتیاں گم تھیں
بہت ہی تیز تھا اب کے نشہ روانی کا

میں کیوں نہ ڈوبتے منظر کے ساتھ ڈوب ہی جاؤں
یہ شام اور سمندر اداس پانی کا

پرندے پہلی اڑانوں کے بعد لوٹ آئے
لپک اٹھا کوئی احساس رائیگانی کا

میں ڈر رہا ہوں ہوا میں کہیں بکھر ہی جائے
یہ پھول پھول سا لمحہ تری نشانی کا

وہ ہنستے کھیلتے اک لفظ کہہ گیا بانیؔ
مگر مرے لیے دفتر کھلا معانی کا