EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کسی منزل میں بھی حاصل نہ ہوا دل کو قرار
زندگی خواہش ناکام ہی کرتے گزری

قیصر شمیم




موسم عجیب رہتا ہے دل کے دیار کا
آگے ہیں لو کے جھونکے بھی ٹھنڈی ہوا کے بعد

قیصر شمیم




میرا مذہب عشق کا مذہب جس میں کوئی تفریق نہیں
میرے حلقے میں آتے ہیں تلسیؔ بھی اور جامیؔ بھی

قیصر شمیم




ساز سے میرے غلط نغموں کی امید نہ کر
آگ کی آگ ہے دل میں تو دھواں کیوں کر ہو

قیصر شمیم




سبز موسم سے مجھے کیا لینا
شاخ سے اپنی جدا ہوں بابا

قیصر شمیم




اس کے آنگن میں روشنی تھی مگر
گھر کے اندر بڑا اندھیرا تھا

قیصر شمیم




آج برسوں میں تو قسمت سے ملاقات ہوئی
آپ منہ پھیر کے بیٹھے ہیں یہ کیا بات ہوئی

قیصر الجعفری