آج برسوں میں تو قسمت سے ملاقات ہوئی
آپ منہ پھیر کے بیٹھے ہیں یہ کیا بات ہوئی
اڑ گئی خاک دل و جاں تو وہ رونے بیٹھے
بستیاں جل گئیں جب ٹوٹ کے برسات ہوئی
تم مرے ساتھ تھے جب تک تو سفر روشن تھا
شمع جس موڑ پہ چھوٹی ہے وہیں رات ہوئی
اس محبت سے ملا ہے وہ ستم گر ہم سے
جتنے شکوے نہ ہوئے اتنی مدارات ہوئی
ایک لمحہ تھا عجب اس کی شناسائی کا
کتنے نادیدہ زمانوں سے ملاقات ہوئی
قتل ہو جاتی ہے اس دور میں دل کی آواز
مجھ پہ تلوار نہ ٹوٹی یہ کرامات ہوئی
گاؤں کے گاؤں بجھانے کو ہوا آئی تھی
میرے معصوم چراغوں سے شروعات ہوئی
شاعری پہلے رسولوں کی دعا تھی قیصرؔ
آج اس عہد میں اک شعبدۂ ذات ہوئی
غزل
آج برسوں میں تو قسمت سے ملاقات ہوئی
قیصر الجعفری