EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کوچۂ یار مرکز انوار
اپنے دامن میں دشت غم کی خاک

قابل اجمیری




میں اپنے غم خانۂ جنوں میں
تمہیں بلانا بھی جانتا ہوں

قابل اجمیری




مجھے تو اس درجہ وقت رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لیے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے

قابل اجمیری




رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں

قابل اجمیری




راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا

قابل اجمیری




تضاد جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تم ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے

قابل اجمیری




تم کو بھی شاید ہماری جستجو کرنی پڑے
ہم تمہاری جستجو میں اب یہاں تک آ گئے

قابل اجمیری