یہ روپوشی نہیں ہے صورت مردم شناسی ہے
ہر اک نا اہل تیرا طالب دیدار بن جاتا
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
یہ زمزمہ طیور خوش آہنگ کا نہیں
ہے نغمہ سنج بلبل رنگیں نوائے قلب
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
جلے مکانوں میں بھوت بیٹھے بڑی متانت سے سوچتے ہیں
کہ جنگلوں سے نکل کے آنے کی کیا ضرورت تھی آدمی کو
پرکاش فکری
جدھر دیکھو لہو بکھرا ہوا ہے
نشانہ کون گولی کا بنا ہے
پرکاش فکری
لرزاں ہے کسی خوف سے جو شام کا چہرہ
آنکھوں میں کوئی خواب پرونے نہیں دیتا
پرکاش فکری
مردہ پڑے تھے لوگ گھروں کی پناہ میں
دریا وفور غیظ سے بپھرا تھا چار سو
پرکاش فکری
یوں تو اپنوں سا کچھ نہیں اس میں
پھر بھی غیروں سے وہ الگ سا ہے
پرکاش فکری