قالب کو اپنے چھوڑ کے مقلوب ہو گئے
کیا اور کوئی قلب ہے اس انقلاب میں
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
سالک ہے گرچہ سیر مقامات دل فریب
جو رک گئے یہاں وہ مقام خطر میں ہیں
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
سکہ اپنا نہیں جمتا ہے تمہارے دل پر
نقش اغیار کے کس طور سے جم جاتے ہیں
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
عشاق جو تصور برزخ کے ہو گئے
آتی ہے دم بہ دم یہ انہیں کو صدائے قلب
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
وہ ماہ جلوہ دکھا کر ہمیں ہوا روپوش
یہ آرزو ہے کہ نکلے کہیں دوبارا چاند
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
وسعت مشرب رنداں کا نہیں ہے محرم
زاہد سادہ ہمیں بے سر و ساماں سمجھا
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
یہ رسالہ عشق کا ہے ادق ترے غور کرنے کا ہے سبق
کبھی دیکھ اس کو ورق ورق مرا سینہ غم کی کتاب ہے
پنڈت جواہر ناتھ ساقی