EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

حویلیاں بھی ہیں کاریں بھی کارخانے بھی
بس آدمی کی کمی دیکھتا ہوں شہروں میں

پروین کمار اشک




کسی کسی کو تھماتا ہے چابیاں گھر کی
خدا ہر ایک کو اپنا پتہ نہیں دیتا

پروین کمار اشک




پھل دار تھا تو گاؤں اسے پوجتا رہا
سوکھا تو قتل ہو گیا وہ بے زباں درخت

پروین کمار اشک




زمیں کو اے خدا وہ زلزلہ دے
نشاں تک سرحدوں کے جو مٹا دے

پروین کمار اشک




آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا

پروین شاکر




اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی

پروین شاکر




اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا

پروین شاکر