عجیب تھی وہ عجب طرح چاہتا تھا میں
وہ بات کرتی تھی اور خواب دیکھتا تھا میں
وصال کا ہو کہ اس کے فراق کا موسم
وہ لذتیں تھیں کہ اندر سے ٹوٹتا تھا میں
چڑھا ہوا تھا وہ نشہ کہ کم نہ ہوتا تھا
ہزار بار ابھرتا تھا ڈوبتا تھا میں
بدن کا کھیل تھیں اس کی محبتیں لیکن
جو بھید جسم کے تھے جاں سے کھولتا تھا میں
پھر اس طرح کبھی سویا نہ اس طرح جاگا
کہ روح نیند میں تھی اور جاگتا تھا میں
کہاں شکست ہوئی اور کہاں صلہ پایا
کسی کا عشق کسی سے نباہتا تھا میں
میں اہل زر کے مقابل میں تھا فقط شاعر
مگر میں جیت گیا لفظ ہارتا تھا میں
غزل
عجیب تھی وہ عجب طرح چاہتا تھا میں
عبید اللہ علیم