تنہا نہیں ہوں گر دل دیوانہ ساتھ ہے
وہ ہرزہ گرد ہوں کہ پری خانہ ساتھ ہے
ہنگامہ اک پری کی سواری کا دیکھنا
کیا دھوم ہے کہ سیکڑوں دیوانہ ساتھ ہے
دل میں ہیں لاکھ طرح کے حیلے بھرے ہوئے
پھر مشورہ کو آئینہ و شانہ ساتھ ہے
روز سیہ میں ساتھ کوئی دے تو جانیے
جب تک فروغ شمع ہے پروانہ ساتھ ہے
دیتا نہیں ہے ساتھ تہی دست کا کوئی
جب تک کہ مے ہے شیشہ میں پیمانہ ساتھ ہے
سیکھا ہوں میکدہ میں طریق فروتنی
جب تک کہ سر ہے سجدۂ شکرانہ ساتھ ہے
جو بے بصر ہیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں دور دور
اور ہر قدم پہ جلوۂ جانانہ ساتھ ہے
کیا خوف ہو ہمیں زن دنیا کے مکر کا
اپنی مدد کو ہمت مردانہ ساتھ ہے
غم کی کتاب سے دل صد پارہ کم نہیں
جس بزم میں گئے یہی افسانہ ساتھ ہے
مانند گرد باد ہوں خانہ بدوش میں
صحرا میں ہوں مگر مرا کاشانہ ساتھ ہے
غزل
تنہا نہیں ہوں گر دل دیوانہ ساتھ ہے
نظم طبا طبائی