یوں میں سیدھا گیا وحشت میں بیاباں کی طرف
ہاتھ جس طرح سے آتا ہے گریباں کی طرف
بیٹھے بیٹھے دل غمگیں کو یہ کیا لہر آئی
اٹھ کے طوفان چلا دیدۂ گریاں کی طرف
دیکھنا لالۂ خود رو کا لہکنا ساقی
کوہ سے دوڑ گئی آگ بیاباں کی طرف
رو دیا دیکھ کے اکثر میں بہار شبنم
ہنس دیا دیکھ کے اکثر گل خنداں کی طرف
بات چھپتی نہیں پڑتی ہیں نگاہیں سب کی
اس کے دامن کی طرف میرے گریباں کی طرف
سیکڑوں داغ گنہ دھو گئے رحمت سے تری
کیا گھٹا جھوم کے آئی تھی گلستاں کی طرف
چشم آئینہ پریشاں نظری سیکھ گئی
دیکھتا تھا یہ بہت زلف پریشاں کی طرف
سر جھکائے ہوئے ہے نظمؔ بسان خامہ
سمت سجدے کی ہے تیری خط فرماں کی طرف
غزل
یوں میں سیدھا گیا وحشت میں بیاباں کی طرف
نظم طبا طبائی