کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
نظیر باقری
خوب گئے پردیس کہ اپنے دیوار و در بھول گئے
شیش محل نے ایسا گھیرا مٹی کے گھر بھول گئے
نظیر باقری
کسی نے ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کے لیے
پھر ایک بار خدا اعتبار دے مجھ کو
نظیر باقری
میں ایک ذرہ بلندی کو چھونے نکلا تھا
ہوا نے تھم کے زمیں پر گرا دیا مجھ کو
نظیر باقری
میں نے دنیا چھوڑ دی لیکن مرا مردہ بدن
ایک الجھن کی طرح قاتل کی نظروں میں رہا
نظیر باقری
ساتھ چلنا ہے تو پھر چھوڑ دے ساری دنیا
چل نہ پائے تو مجھے لوٹ کے گھر جانے دے
نظیر باقری
تا عمر پھر نہ ہوگی اجالوں کی آرزو
تو بھی کسی چراغ کی لو سے لپٹ کے دیکھ
نظیر باقری