EN हिंदी
دھواں بنا کے فضا میں اڑا دیا مجھ کو | شیح شیری
dhuan bana ke faza mein uDa diya mujhko

غزل

دھواں بنا کے فضا میں اڑا دیا مجھ کو

نظیر باقری

;

دھواں بنا کے فضا میں اڑا دیا مجھ کو
میں جل رہا تھا کسی نے بجھا دیا مجھ کو

ترقیوں کا فسانہ سنا دیا مجھ کو
ابھی ہنسا بھی نہ تھا اور رلا دیا مجھ کو

میں ایک ذرہ بلندی کو چھونے نکلا تھا
ہوا نے تھم کے زمیں پر گرا دیا مجھ کو

سفید سنگ کی چادر لپیٹ کر مجھ پر
فصیل شہر پہ کس نے سجا دیا مجھ کو

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

نہ جانے کون سا جذبہ تھا جس نے خود ہی نظیرؔ
مری ہی ذات کا دشمن بنا دیا مجھ کو