EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تو ہے وہ گل اے جاں کہ ترے باغ میں ہے شوق
جبریل کو بلبل کی طرح نعرہ زنی کا

نظیر اکبرآبادی




تو جو کل آنے کو کہتا ہے نظیرؔ
تجھ کو معلوم ہے کل کیا ہوگا

نظیر اکبرآبادی




طوفاں اٹھا رہا ہے مرے دل میں سیل اشک
وہ دن خدا نہ لائے جو میں آب دیدہ ہوں

نظیر اکبرآبادی




اس بے وفا نے ہم کو اگر اپنے عشق میں
رسوا کیا خراب کیا پھر کسی کو کیا

نظیر اکبرآبادی




واماندگان راہ تو منزل پہ جا پڑے
اب تو بھی اے نظیرؔ یہاں سے قدم تراش

نظیر اکبرآبادی




وہ آپ سے روٹھا نہیں مننے کا نظیرؔ آہ
کیا دیکھے ہے چل پاؤں پڑ اور اس کو منا لا

نظیر اکبرآبادی




وہ مے کدے میں حلاوت ہے رند میکش کو
جو خانقاہ میں ہے پارسا کو عیش و طرب

نظیر اکبرآبادی