میں ایک قرض ہوں سر سے اتار دے مجھ کو
لگا کے داؤں پہ اک روز ہار دے مجھ کو
بکھر چکا ہوں غم زندگی کے شانوں پر
اب اپنی زلف کی صورت سنوار دے مجھ کو
ہزار چہرے ابھرتے ہیں مجھ میں تیرے سوا
میں آئنہ ہوں تو گرد و غبار دے مجھ کو
کسی نے ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کے لیے
پھر ایک بار خدا اعتبار دے مجھ کو
میں بھوک پیاس کے صحرا میں اب بھی زندہ ہوں
جواہرات کی کرنوں سے مار دے مجھ کو
غزل
میں ایک قرض ہوں سر سے اتار دے مجھ کو
نظیر باقری