نہیں ہوا میں یہ بو نافۂ ختن کی سی
لپٹ ہے یہ تو کسی زلف پر شکن کی سی
میں ہنس کے اس لیے منہ چومتا ہوں غنچہ کا
کہ کچھ نشانی ہے اس میں ترے دہن کی سی
خدا کے واسطے گل کو نہ میرے ہاتھ سے لو
مجھے بو آتی ہے اس میں کسی بدن کی سی
ہزار تن کے چلیں بانکے خوب رو لیکن
کسی میں آن نہیں تیرے بانکپن کی سی
مجھے تو اس پہ نہایت ہی رشک آتا ہے
کہ جس کے ہاتھ نے پوشاک تیرے تن کی سی
کہا جو تم نے کہ منکا ڈھلا تو آؤں گا
ہے بات کچھ نہ کچھ اس میں بھی مکر و فن کی سی
وگرنہ سچ ہے تو اے جان اتنی مدت میں
یہی بس ایک کہی تم نے میرے من کی سی
وہ دیکھ شیخ کو لاحول پڑھ کے کہتا ہے
''یہ آئے دیکھیے داڑھی لگائے سن کی سی''
کہاں تو اور کہاں اس پری کا وصل نظیرؔ
میاں تو چھوڑ یہ باتیں دوانے پن کی سی
غزل
نہیں ہوا میں یہ بو نافۂ ختن کی سی
نظیر اکبرآبادی