جال میں زر کے اگر موتی کا دانا ہوگا
وہ نہ اس دام میں آوے گا جو دانا ہوگا
دام زلف اور جہاں خال کا دانا ہوگا
پھنس ہی جاوے گا غرض کیسا ہی دانا ہوگا
دل کو ہم لائے تھے مژگاں کی صفیں دکھلانے
یہ نہ سمجھے تھے کہ تیروں کا نشانا ہوگا
آج دیکھ اس نے مری چاہ کی چتون یارو
منہ سے گو کچھ نہ کہا دل میں تو جانا ہوگا
بھر نظر دیکھیں گے اس عہد شکن کی صورت
دیکھیے کون سا یارب وہ زمانا ہوگا
خوں بہانے کا مرے حشر میں جب ہوگا بہا
دیکھیں کیا اس گھڑی قاتل کو بہانا ہوگا
وہ بھی کچھ ایسی ہی کہہ دے گا کہ جس سے اس کو
بات کی بات بہانے کا بہانا ہوگا
تلخیٔ مرگ جسے کہتے ہیں افسوس افسوس
ایک دن سب کے تئیں زہر یہ کھانا ہوگا
دیکھ لے اس چمن دہر کو دل بھر کے نظیرؔ
پھر ترا کاہے کو اس باغ میں آنا ہوگا
غزل
جال میں زر کے اگر موتی کا دانا ہوگا
نظیر اکبرآبادی