اپنے ہونے کی ارزانی ختم ہوئی
مشکل سے یہ تن آسانی ختم ہوئی
تجھ کو کیا معلوم ہماری بینائی
کیسے ہو کر پانی پانی ختم ہوئی
بہتا ہے چپ چاپ بچھڑ کر چوٹی سے
دریا کی پر شور روانی ختم ہوئی
مٹی کی آواز سنی جب مٹی نے
سانسوں کی سب کھینچا تانی ختم ہوئی
دل پر سارے موسم بیت گئے جاویدؔ
یعنی خوشبو دار کہانی ختم ہوئی
غزل
اپنے ہونے کی ارزانی ختم ہوئی
نذر جاوید