EN हिंदी
ہم یوں ہی بکھرے نہیں ہر سو خس و خاشاک میں | شیح شیری
hum yunhi bikhre nahin har-su KHas-o-KHashak mein

غزل

ہم یوں ہی بکھرے نہیں ہر سو خس و خاشاک میں

نذر جاوید

;

ہم یوں ہی بکھرے نہیں ہر سو خس و خاشاک میں
ہیں نمو بر دوش رنگ و بو خس و خاشاک میں

اس کے ہونے کا گماں رہتا ہے میرے آس پاس
ہر طرف رچ بس گئی خوشبو خس و خاشاک میں

ہو ثمر آور ہماری آبلہ پائی کہیں
چین آ جائے کسی پہلو خس و خاشاک میں

چاہئے ہوتی ہے کشت زر کو جب بھی کچھ نمو
میں بہا دیتا ہوں کچھ آنسو خس و خاشاک میں

جانتی ہے وہ بصیرت تک کو الجھانے کا فن
جو کشش ہے صورت جادو خس و خاشاک میں

جب ادھر اٹھتے ہیں طالع آزماؤں کے قدم
بجھنے لگتے ہیں ادھر جگنو خس و خاشاک میں

یہ تو اے جاویدؔ گزرے موسموں کی راکھ ہے
آخرش کیا ڈھونڈھتا ہے تو خس و خاشاک میں