ہم یوں ہی بکھرے نہیں ہر سو خس و خاشاک میں
ہیں نمو بر دوش رنگ و بو خس و خاشاک میں
اس کے ہونے کا گماں رہتا ہے میرے آس پاس
ہر طرف رچ بس گئی خوشبو خس و خاشاک میں
ہو ثمر آور ہماری آبلہ پائی کہیں
چین آ جائے کسی پہلو خس و خاشاک میں
چاہئے ہوتی ہے کشت زر کو جب بھی کچھ نمو
میں بہا دیتا ہوں کچھ آنسو خس و خاشاک میں
جانتی ہے وہ بصیرت تک کو الجھانے کا فن
جو کشش ہے صورت جادو خس و خاشاک میں
جب ادھر اٹھتے ہیں طالع آزماؤں کے قدم
بجھنے لگتے ہیں ادھر جگنو خس و خاشاک میں
یہ تو اے جاویدؔ گزرے موسموں کی راکھ ہے
آخرش کیا ڈھونڈھتا ہے تو خس و خاشاک میں
غزل
ہم یوں ہی بکھرے نہیں ہر سو خس و خاشاک میں
نذر جاوید