زخم ابھی تک تازہ ہیں ہر داغ سلگتا رہتا ہے
سینہ میں اک جلیاں والا باغ سلگتا رہتا ہے
نفس انبالوی
زندگی وقت کے صفحوں میں نہاں ہے صاحب
یہ غزل صرف کتابوں میں نہیں ملتی ہے
نفس انبالوی
سلے ہوں لب زبانیں بند تو باتیں نہیں ہوتیں
مخالف راستے ہوں تو ملاقاتیں نہیں ہوتیں
نفیر سرمدی
نشاں تو تیرے چلنے سے بنیں گے
یہاں تو ڈھونڈتا ہے نقش پا کیا
نعیم صدیقی
شب کتنی بوجھل بوجھل ہے ہم تنہا تنہا بیٹھے ہیں
ایسے میں تمہاری یاد آئی جس طرح کوئی الہام آئے
نعیم صدیقی
آسمانوں سے زمینوں پہ جواب آئے گا
ایک دن رات ڈھلے یوم حساب آئے گا
نجیب احمد
ہم تو سمجھے تھے کہ چاروں در مقفل ہو چکے
کیا خبر تھی ایک دروازہ کھلا رہ جائے گا
نجیب احمد

